سال ۲۰۲۲ میں خریدا گیا لال رنگ کا ٹریکٹر گنیش شندے کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ مہاراشٹر کے پربھنی ضلع کے کھلی گاؤں کے کسان شندے اپنی ملکیت والی دو ایکڑ زمین پر کپاس اُگاتے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں کپاس کی قیمت میں آئی تیز گراوٹ کے سبب شندے آمدنی کے اضافی وسائل تلاش کرنے کے لیے مجبور ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے ایک سرکاری بینک سے قرض لے کر ۸ لاکھ روپے میں ٹریکٹر خریدا ہے۔
’’میں اپنے ٹریکٹر کو گھر سے ۱۰ کلومیٹر دور گنگا کھیڑ شہر لے جاتا ہوں اور جنکشن پر انتظار کرتا ہوں،‘‘ ۴۴ سالہ یہ کسان بتاتے ہیں۔ ’’آس پاس کچھ بنوا یا تعمیراتی کام کرا رہے کسی انسان کو ریت (بالو) جیسے کسی سامان کی ڈھلانی کرانی ہوتی ہے، تو وہ کرایہ کے عوض میرے ٹریکٹر کی خدمت حاصل کر سکتے ہیں۔ جب جب کام مل جاتا ہے اس دن اس سے مجھے ۵۰۰ سے ۸۰۰ روپے کی آمدنی ہو جاتی ہے۔‘‘ صبح گنگا کھیڑ کے لیے نکلنے سے پہلے شندے کم از کم دو گھنٹے اپنے کھیت کا کام کاج دیکھتے ہیں۔
شندے نے ۲۰۲۵ کے بجٹ کو اچھی طرح دیکھا اور سمجھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہیں بجٹ سے کوئی بہت امید تھی، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ کرایے کے لیے کسی کا انتظار کرنے کے وقت ان کے پاس کرنے کو کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔ ’’منریگا (مہاتما گاندھی روزگار گارنٹی قانون، ۲۰۰۵) کے لیے مختص بجٹ اتنا ہی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ کھلی کے سابق سرپنچ شندے بتاتے ہیں کہ منریگا کے سبب لوگوں کے حالات میں بہت کم تبدیلی ہوئی ہے۔ ’’پیسے کا کوئی استعمال روزگار پیدا کرنے کے لیے نہیں ہوا ہے۔ سب کچھ بس کاغذ پر ہے۔‘‘

ٹریکٹر کو کرایے پر چلانے کے لیے، گنگا کھیڑ میں جنکشن پر گاہک کے انتظار میں بیٹھے شندے
کپاس کی گرتی قیمتوں کے سبب شندے جیسے کسانوں کے لیے گزارہ کر پانا مشکل ہو گیا ہے۔ سال ۲۰۲۲ میں ایک کوئنٹل کپاس کی قیمت ۱۲ ہزار روپے ہوا کرتی تھی، لیکن ۲۰۲۴ میں مہاراشٹر کے کچھ علاقوں میں یہ گھٹ کر صرف ۴۰۰۰ روپے رہ گئی۔
موجودہ بجٹ میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اگلے پانچ سالوں کے لیے ’’کپاس پیداواری مشن‘‘ کی تجویز رکھی ہے اور اس مد میں کپڑے کی وزارت کو سال ۲۰۲۵-۲۶ کے لیے ۵۲۷۲ کروڑ روپے مختص کیے ہیں – جو پچھلے سال کے مقابلے ۱۹ فیصد زیادہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’’اس پہل سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور اچھی قسم کی کپاس کی سپلائی کو فروغ حاصل ہوگا۔‘‘
’’بجٹ میں بس دکھاوا کیا گیا ہے کہ یہ غریبوں کے مفاد کو ذہن میں رکھ کر بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ صرف امیروں کو منافع دینے والا بجٹ ہے،‘‘ شندے کہتے ہیں۔ مجوزہ مشن سے ان کو کوئی امید نہیں ہے۔ ’’ہماری آمدنی رک گئی ہے، بلکہ اس میں گراوٹ آتی جا رہی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ایسے میں کسانوں کا کیا فائدہ ہوگا؟‘‘
ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز