’’پہلے بائیں مڑ یں، کچھ دور چلنے کے بعد آپ کو ایک سیاہ کھمبے پر اس فوجی کی تصویر نظر آئے گی۔ وہی اس کا گھر ہے۔‘‘ رام گڑھ سرداراں میں ایک عمر رسیدہ سائیکل مکینک ایک گھماؤدار راستے کی طرف اشارہ کر تے ہیں۔ گاؤں کے لوگ اجے کمار کو فوجی یا شہید کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔

لیکن حکومت ہند کی نظر میں وہ نہ تو فوجی ہیں اور نہ ہی شہید۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ۲۳ ​​سالہ نوجوان نے جموں و کشمیر میں شورش مخالف کارروائیوں میں اپنے خون کے آخری قطرہ تک کو اس ملک کی سرحدوں کے دفاع میں نثار کر دیا۔ دلت برادری سے تعلق رکھنے والے اس کے بوڑھے اور بے زمین والدین اپنے بیٹے کے لیے پنشن یا شہید کے درجہ کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ وہ سابق فوجی امدادی صحت اسکیم یا یہاں تک کہ کینٹین اسٹورز ڈپارٹمنٹ کی چھوٹ کے تحت کسی بھی فوائد کے اہل نہیں ہیں، کیوں کہ سرکاری ریکارڈ میں اجے کمار نہ تو فوجی تھے اور نہ ہی شہید۔

وہ صرف ایک ’اگنی ویر‘ تھے۔

یہ اور بات ہے کہ لدھیانہ ضلع کے اس گاؤں میں سرکاری ریکارڈ  پر بہت توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) سے اتر کر سرسوں کے پھولوں والے خوبصورت کھیتوں کے درمیان سے گزرنے والی سڑک آپ کو ۴۵ منٹ میں رام گڑھ سرداراں تک پہنچا دیتی ہے۔ یہاں پہنچ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس گاؤں کی دیواروں نے اپنا ریکارڈ پہلے ہی لکھ رکھا ہے۔ گہرے سبز رنگ کی لباس میں ملبوس خوب رو اجے کی تصویروں والی ہورڈنگز جگہ جگہ آویزاں ہیں۔ یہ تصاویر انہیں شہید بھگت سنگھ کے ساتھ تسلسل میں کھڑا کرتی ہیں، جو نو دہائیوں قبل اپنے ساتھیوں کے ساتھ پھانسی کے تختہ پر چڑھ گئے تھے۔ ایک کے بعد ایک کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن ابھی تک انہیں شہید کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔

گاؤں کی ایک ہورڈنگ پر یہ پیغام لکھا ہے:

نوجوان جد اُٹھدے نے
تاں نظام بدل جاندے نے
بھگت سنگھ اجّ وی پیدا ہوندے نے
بس نام بدل جاندے نے

[نوجوان جب اٹھتے ہیں
تو نظام بدل جاتے ہیں،
بھگت سنگھ آج بھی پیدا ہوتے ہیں،
بس نام بدل جاتے ہیں…]

PHOTO • Vishav Bharti
PHOTO • Vishav Bharti

بائیں : اجے کمار کے گھر کے دروازہ پر ا ی ستادہ ایک سیاہ ستون پر ان کی تصویر آویزاں ہے۔ دائیں : گاؤں رائے گڑھ سرداراں میں لگی ایک ہورڈنگ جس پر مندرجہ بالا اشعار درج ہیں

اجے کمار نے جنوری ۲۰۲۴ میں جموں و کشمیر میں اپنی جان کی قربانی دی۔ اپنے نانا حولدار پیارے لال سے متاثر ہو کر، اجے بچپن سے ہی ہندوستانی فوج میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ ان کے والد چرن جیت سنگھ کہتے ہیں، ’’اس نے دسویں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تیاری شروع کر دی تھی۔‘‘

’’لیکن بھرتی کے وقت وہ اگنی ویر اور سپاہی کا فرق نہیں جانتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اب ان کی شہادت کے بعد نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ آس پاس کے گاؤوں کے نوجوان بھی جان چکے ہیں کہ ’ٹھیکہ پر فوجی‘ ہونے کا کیا مطلب ہے۔

اجے کی چھ بہنوں میں سب سے چھوٹی ۲۲ سالہ انجلی دیوی ہمیں بتاتی ہیں، ’’ہمارے ساتھ روا رکھے گئے نامناسب رویہ کو دیکھ کر، نوجوانوں کے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ شہادت کے بعد بھی کسی اگنی ویر کے لواحقین کو وہ سہولیات نہیں ملتیں جو دوسرے فوجیوں کو دی جاتی ہیں۔‘‘

وہ اپنے غم وغصہ کا اظہار بے لاگ انداز میں کرتی ہیں۔ ’’وہ اگنی ویروں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ اگر کسی اگنی ویر کی موت بھی ہو جائے تو حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے۔ گویا وہ کم تر انسان ہیں۔‘‘

اگنی ویروں کے ساتھ اس طرح کے سلوک کی کہانیوں نے اس ریاست میں فوج میں شامل ہونے کے خواہشمند  امیدواروں کے حوصلے پست کر دیے ہیں۔ برطانوی حکومت کے زمانہ سے ہی اس ریاست کو فوج کے جوان فراہم کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران، جس کا اختتام ۱۹۱۸ میں، یعنی ۱۰۳ سال قبل ہوا تھا – برطانوی ہندوستانی فوج کے ہر دوسرے سپاہی کا تعلق پنجاب سے تھا، جس میں اس وقت موجودہ ہریانہ بھی شامل تھا اور مغربی پنجاب بھی - جو اب پاکستان میں ہے۔ سال ۱۹۲۹ میں کل ۱۳۹۲۰۰ فوجیوں میں سے ۸۶۰۰۰  کا تعلق پنجاب سے تھا۔

یہی رجحان چند سال قبل تک جاری رہا۔ ۱۵ مارچ ۲۰۲۱ کو پارلیمنٹ میں جاری کیے گئے وزارت دفاع کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج میں ۸۹۰۰۰ بھرتیوں کے ساتھ پنجاب ہندوستانی ریاستوں میں دوسرے مقام پر ہے۔ [پنجاب سے ساڑھے سات گنا آبادی والی ریاست اتر پردیش پہلے نمبر پر ہے۔] ہندوستان کی کل آبادی کا محض ۳ء۲ فیصد ہونے کے باوجود فوج کے تمام اہلکاروں میں پنجاب کی حصہ داری  ۷ء۷  فیصد ہے، جبکہ یوپی کی حصہ داری ۵ء۱۴ فیصد ہے۔ حالانکہ یہ ریاست ہندوستان کی ۵ء۱۶ فیصد آبادی کا مسکن ہے۔

PHOTO • Courtesy: Surinder Singh

سنگرور ضلع کی فزیکل اکیڈمی لہراگ ا گا میں کھڑے مسلح افواج کے امیدواروں کی ۲۰۲۲ کی ایک تصویر، اسے دو سال قبل اگنی ویر کے آغاز کے بعد بند کر دیا گیا تھا

تاہم، اگنی ویر اسکیم کے آغاز کے بعد زمینی سطح پر صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ فوج کی بھرتی کے تربیتی مراکز عام طور پر ریاست بھر کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجود تھے۔ لیکن گزشتہ دو سالوں کے دوران ان میں سے بیشتر بند ہو چکے ہیں، کیونکہ مسلح افواج میں شامل ہونے کے خواہشمند امیدواروں کی تعداد میں اچانک کمی واقع ہوگئی ہے۔

سریندر سنگھ نے اپنی ’فزیکل اکیڈمی‘ بند کر دی ہے۔ یہ اکیڈمی مسلح افواج میں بھرتی کا تربیتی مرکز تھی، جسے وہ تقریباً ایک دہائی سے سنگرور ضلع کے لہراگاگا قصبہ میں چلا رہے تھے۔ انہوں نے پاری کو بتایا کہ ہر سال اکیڈمی پٹیالہ، سنگرور، برنالہ، فتح گڑھ صاحب اور مانسا اضلاع کے تقریباً ایک ہزار نوجوانوں کو کئی بیچوں میں جسمانی تربیت فراہم کرتی تھی۔ لیکن اگنی ویر اسکیم شروع کیے جانے کے بعد  امیدواروں کی جانب سے ٹرینگ سے متعلق پوچھ گچھ کی تعداد کم ہو کر صرف ۵۰ رہ گئی تھی۔ ’’ہمارے لیے اپنے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا تھا، اس لیے ہم نے مرکز کو بند کر دیا،‘‘ وہ افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

سال ۲۰۱۱ میں اپنے مرکز کے آغاز اور ۲۰۲۲ کے آخر میں اس کے بند ہونے کے درمیان، ’’ہمارے یہاں سے تربیت لینے والے تقریباً ۱۴۰۰ سے ۱۵۰۰ نوجوانوں نے ہندوستانی مسلح افواج میں شمولیت اختیار کی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

سریندر سنگھ کا کہنا ہے کہ پنجاب، راجستھان اور ہریانہ میں جسمانی تربیت کے دیگر مراکز کی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ ’’ان میں سے تقریباً ۸۰ مراکز بند ہو چکے ہیں،:: وہ کہتے ہیں۔ اور جو باقی ماندہ ۲۰ فیصد ہیں انہوں نے اپنی توجہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھرتی پر مرکوز کر دی ہے۔

’’اگر پہلے ایک گاؤں کے ۵۰ سے ۱۰۰ نوجوان مسلح افواج میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتے تھے، تو یہ تعداد اب کم ہو کر دو سے پانچ کے درمیان رہ گئی ہے۔ اگنی ویر اسکیم کا یہ بہت بڑا اثر ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

کرم جیت سنگھ، جو کبھی پٹیالہ ضلع کے نابھا قصبہ میں نیو سینک پبلک اکیڈمی چلاتے تھے، ہمیں بتاتے ہیں کہ ۲۰۲۳ میں ۶۰ طلباء نے مسلح افواج کے تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم، ان میں سے صرف چند ہی جسمانی تربیت (فزیکل ٹریننگ) کے لیے آئے کیونکہ نئی اسکیم کے مضمرات ان پر واضح ہو چکے تھے۔ آخرکار اکیڈمی بند کر دی گئی۔

PHOTO • Courtesy: Surinder Singh
PHOTO • Courtesy: Surinder Singh

فوج میں بھرتی کے لیے سنگرور کے اس تربیتی مرکز کی طرح پوری ریاست میں تربیتی مراکز بند ہو گئے ہیں کیونکہ مسلح افواج کے امیدواروں کی تعداد میں اچانک کمی واقع ہوگئی ہے

سنگرور ضلع کے علی پور خالصہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے جگسیر گرگ ان طلباء میں شامل تھے، جنہوں نے تحریری امتحان پاس کر لیا تھا لیکن جسمانی ٹیسٹ کے لیے نہیں گئے۔ وجہ؟ ’’میرے والدین نے کہا کہ صرف چار سال کی نوکری کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی حادثہ کی صورت میں خاندان کو کچھ نہیں ملتا۔ اکیڈمی میں میرے بیچ میں بہت سے ایسے امیدوار تھے جو تحریری امتحان پاس کرنے کے باوجود فزیکل ٹیسٹ کے لیے نہیں گئے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ جگسیر اب استعمال شدہ موٹر سائیکلوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کر رہے ہیں۔

اپنے بچوں کو مسلح افواج میں بھیجنے کی پرانی روایت کی وجہ سے پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بھرتی اکیڈمیاں موجود ہیں۔ آج، جیسا کہ سریندر سنگھ نے اشارہ کیا، ان میں سے زیادہ تر یا تو بند ہو چکی ہیں یا اپنی خدمات پولیس بھرتی کی تربیت کی جانب منتقل کر چکی ہیں۔ سب سے پہلے، ان مراکز کو مارچ ۲۰۲۰ اور مارچ ۲۰۲۲ کے درمیان بھرتیوں پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا: بنیادی وجہ کووڈ کی وبا  اور اس کے فوراً بعد پرچہ لیک ہونا تھی۔

اور پھر حکومت اگنی پتھ اسکیم لے کر آئی۔ اس کا اعلان ۱۴ جون ۲۰۲۲ کو مرکزی کابینہ نے ایک ’پرکشش‘ بھرتی اسکیم کے طور پر کیا تھا۔ اس کے تحت نوجوانوں کو فوج کے باقاعدہ کیڈر، جہاں کم از کم سروس ۱۵ سال کی ہوتی ہے، کی بجائے صرف چار سال کے لیے بھرتی کیا جائے گا۔

حکومت نے اس اسکیم کو ایک ایسی اسکیم کے طور پر مشتہر کیا ہے جو ’’تینوں افواج کی انسانی وسائل کی پالیسی میں ایک نئے دور کا آغاز کرے گی۔‘‘ جیسا کہ پاری کے نامہ نگاروں نے پہلے کی رپورٹوں میں نشاندہی کی ہے: ۲۰۲۰ تک، مسلح افواج میں اوسطاً سالانہ بھرتی تقریباً ۶۱ ہزار تھی۔ اگنی پتھ اسکیم کے تحت کم ہو کر یہ تقریباً ۴۶ ہزار جوانوں کی بھرتی تک پہنچ جائے گی۔

یہ کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ زندگی بھر فوج میں نوکری کرنے کے خواب ٹوٹنے لگے ہیں۔ یہ خواب بہت سے دیہی نوجوانوں کے لیے بہت اہم تھے۔ اب ان کے پاس صرف چار سال کی مدت ہوگی، جس کے بعد ان میں سے صرف ایک چوتھائی کو فوج کے باقاعدہ کیڈر میں شامل کیا جائے گا۔

پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کے محکمہ دفاع اور اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سابق سربراہ ڈاکٹر امراؤ سنگھ کہتے ہیں کہ دیہی معاشرے میں مسلح افواج کو ملنے والی تعظیم کے علاوہ، پنجابیوں کے افواج میں شامل ہونے کے جوش کے پیچھے روزگار کے سازگار حالات بنیادی محرک تھے۔

PHOTO • Courtesy: Surinder Singh
PHOTO • Courtesy: Surinder Singh

اپنے بچوں کو مسلح افواج میں بھیجنے کی ایک دیرینہ روایت کی وجہ سے پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں بھرتی اکیڈمیاں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں

’’اگنی ویر اسکیم کے نفاذ کے بعد اس نوکری کو ملنے والی تعظیم کم ہوئی ہے۔ انہیں اب ٹھیکہ والے فوجی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تعظیم کے عنصر کو کمزور کیا گیا، جس کی وجہ سے امیدواروں کی تعداد میں زبردست کمی آئی ہے۔ اگنی ویر کے آغاز کے بعد بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اب کینیڈا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اس متبادل پر بھی قدغن لگتا دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے ہی زرعی بحران میں گھرے پنجاب کا دیہی معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہے،‘‘ ڈاکٹر سنگھ کہتے ہیں۔

فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یا تو کاشتکار گھرانوں سے ہوتا تھا یا پھر بے زمین دلت ہوتے تھے۔ جیسا کہ یادویندر سنگھ، جو مانسا ضلع کے رنگریئل گاؤں میں فوج کے امیدواروں کو تحریری امتحان کے لیے تیار کرتے ہیں، بتاتے ہیں: ’’پہلے پانچ سات ایکڑ زمین والے گھرانوں کے لڑکوں میں بھی بہت زیادہ جوش و خروش ہوا کرتا تھا، لیکن اب مشکل سے ہی کاشتکاری کے پس منظر والا امیدوار ہمارے پاس آتا ہے۔ اب بنیادی طور پر صرف دلت خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان، جن کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے، وہی اس میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔‘‘

اجے کمار کا تعلق ایسے ہی ایک بے زمین دلت کنبہ سے تھا۔ ’’اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے کئی سالوں تک یومیہ اجرت پر کام کیا، جبکہ ان کی ماں زمینداروں کے مویشیوں کے شیڈوں کی صفائی سے لے کر منریگا تک کے کام کرتی تھیں،‘‘ ان کے والد چرنجیت سنگھ کہتے ہیں۔ ’’اور بدلے میں ہمیں کیا ملا؟ پیسہ؟ پیسہ ہوا میں غائب ہو جائے گا۔‘‘ [وہ انشورنس کی رقم کا حوالہ دے رہے ہیں، معاوضہ کی رقم کا نہیں کیونکہ اجے اس کے حقدار نہیں تھے۔]

چرنجیت اپنی باقیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں: کالے رنگ کے فوجی ٹرنک کو بڑے احتیاط سے رکھا گیا ہے، جس پر سفید پینٹ سے ترچھے حروف میں ’اگنی ویر اجے کمار‘ لکھا ہوا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ تین حروف نہ صرف اجے کے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کہانی سنا رہے ہیں، بلکہ پنجاب کے نوجوانوں کی پوری نسل کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔

PHOTO • Vishav Bharti
PHOTO • Vishav Bharti

بائیں : اگنی ویر اجے کمار کے گھر میں ٹنگی ان کی تصویر۔ دائیں : ۲۵ و یں انفنٹری ڈویژن، جس سے اجے منسلک تھے، کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل گورو رشی کی طرف سے فیملی کو بھیجا گیا تعزیتی پیغام

PHOTO • Vishav Bharti
PHOTO • Vishav Bharti

بائیں : اگنی ویر اجے کمار کا ٹرنک جو ان کے کمرے میں رکھا گیا ہے۔ دائیں : اگنی ویر اجے کمار کے والدین چرن جیت سنگھ اور منجیت کور پس منظر میں ایک فلیکس بورڈ کے ساتھ جس میں مادر وطن اور قربانی کے موضوع پر ایک شعر درج ہے ( ن یچے متن دیکھیں )

اجے کے گھر کا ایک نو تعمیر شدہ کمرہ ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد ماضی کی یادوں میں گم ہو گیا ہے، جو اکلوتے بیٹے، چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی – جن میں سے دو غیر شادی شدہ ہیں – کی یادوں سے بھرا گیا ہے۔ ان یادوں میں استری شدہ وردی، احتیاط سے رکھی پگڑی، پالش کیے ہوئے جوتےاور ان کی فریم شدہ تصاویر شامل ہیں۔

گفتگو کے دوران ایک طویل خاموشی کے بعد، ہم نے اجے کے والد سے ایک واضح سوال پوچھا: کیا وہ اب بھی گاؤں کے دوسرے لڑکوں کو فوج میں شامل ہونے کا مشورہ دیں گے؟ ’’میں ایسا کیوں کروں گا؟ میرا لڑکا یوں ہی چلا گیا۔ دوسروں کے بیٹوں کا ایسا ہی انجام کیوں ہو؟‘‘

ان کی پشت کی دیوار پر، اجے کی تصویر والے ایک فلیکس پر لکھا ہے:

لکھ دیو لہو نال امر کہانی، وطن دی خاطر
کر دیو قربان یہ جوانی، وطن دی خاطر

[لکھ دو لہو سے امر کہانی، وطن کی خاطر
کر دو قربان جوانی، وطن کی خاطر…]

یادوں کے سمندر میں غوطہ لگاتے ہوئے چرن جیت سنگھ کی آنکھیں سوال کرتی نظر آتی ہیں کہ مادر وطن بدلے میں انہیں کیا دے گی؟

مترجم: شفیق عالم

عبارت مابعد:

پنجاب کے مانسا ضلع کے اکلیا گاؤں میں ۲۴ جنوری، ۲۰۲۵ کو ایک اور لاش وہاں کے ایک چھوٹے سے کسان کے گھر پہنچی۔ یہ لاش ۲۴ سالہ لو پریت سنگھ کی تھی، جو گزشتہ ۱۵ مہینوں کے دوران ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرنے والے پنجاب کے تیسرے اگنی ویر بن گئے۔

ان تمام لوگوں کی موت کشمیر میں ہوئی۔ ان میں سے پہلے اگنی ویر تھے امرت پال سنگھ، جنہوں نے اکتوبر ۲۰۲۳ میں ملک کے لیے اپنی جان قربان کی۔ اس کے بعد جنوری ۲۰۲۴ میں اجے کمار کی جان گئی، جن کے اوپر درج بالا اسٹوری لکھی گئی ہے۔ اجے کمار کی فیملی کی طرح ہی، لو پریت سنگھ کے والد بیئنت سنگھ کے پاس بھی اب صرف اپنے بیٹے کی یادیں بچی ہیں۔

’’لو پریت نے گھر پر ایک گھڑی منگوائی تھی؛ اسے انتظار تھا کہ گھر لوٹنے پر وہ اس گھڑی کو پہنے گا۔ لیکن افسوس کہ اب وہ اسے پہن نہیں پائے گا،‘‘ میڈیا والوں کو یہ بتاتے ہوئے بیئنت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں۔ ایک اور خاندان کے لیے ایسا لگتا ہے کہ وقت گویا رک گیا ہو۔ لیکن، ہر نوجوان کے شہید ہونے کے بعد، پنجاب میں اگنی ویروں کے لیے عزت و انصاف کی آواز تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

Vishav Bharti

Vishav Bharti is a journalist based in Chandigarh who has been covering Punjab’s agrarian crisis and resistance movements for the past two decades.

Other stories by Vishav Bharti
Editor : P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam