انجنا دیوی کی نظر میں بجٹ کے بارے میں جاننا سمجھنا مردوں کا کام ہے۔

’’مرد لوگ ہی جانتا ہے ای سب، لیکن وہ تو نہیں ہے گھر پر،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ حالانکہ، وہ گھر پر ہی رہتی ہیں، لیکن گھر کے خرچ وہی سنبھالتی ہیں۔ انجنا چمار ہیں، اور درج فہرست ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔

’’بجٹ!‘‘ وہ کہتی ہیں اور یاد کرنے کی کوشش کرنے لگتی ہیں کہ نئے اعلانات کے بارے میں انہوں نے کچھ سنا ہے یا نہیں؟ ’’او سب ہم نہیں سنے ہیں۔‘‘ لیکن بہار کے ویشالی ضلع کے سوندھو رتّی گاؤں کی یہ دلت رہائشی کہتی ہیں، ’’ای سب [بجٹ] پیسہ والا لوگ کے لیے ہے۔‘‘

انجنا کے شوہر ۸۰ سالہ شمبھو رام، جو اس وقت بھجن گانے کہیں گئے ہوئے تھے، اپنے گھر میں ہی ریڈیو مرمت کا کام کرتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس گنتی کے لوگ آتے ہیں۔ ’’ہم مشکل سے ہفتوں میں ۳۰۰-۴۰۰ روپے کما پاتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ سالانہ آمدنی کے حساب سے یہ زیادہ سے زیادہ ۱۶ ہزار ۵۰۰ روپے ہوتے ہیں۔ یا ۱۲ لاکھ روپے کی ٹیکس سے آزاد آمدنی کا صرف ۳۵ء۱ فیصد۔ جب انجنا کو ٹیکس کی حد کی چھوٹ میں اضافہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے، تو وہ ہنسنے لگتی ہیں۔ ’’کئی بار ہم ہفتہ میں ۱۰۰ روپے بھی نہیں کما پاتے ہیں۔ یہ موبائل فون کا دور ہے۔ اب لوگ ریڈیو کہاں سنتے ہیں!‘‘ وہ مایوسی کے ساتھ کہتی ہیں۔

PHOTO • Umesh Kumar Ray
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: انجنا دیوی، بہار کے ویشالی ضلع کے سوندھو رتّی گاؤں میں رہتی ہیں۔ اس گاؤں میں چمار برادری کے لوگوں کے ۱۵۰ گھر ہیں، اور ان میں ۹۰ فیصد لوگ بے زمین ہیں۔ دائیں: ۸۰ سالہ شمبھو رام کی ریڈیو مرمت کی جگہ

PHOTO • Umesh Kumar Ray

انجنا دیوی گھر کے خرچ خود سنبھالتی ہیں، لیکن مرکزی بجٹ کے بارے میں ان کو کوئی جانکاری نہیں ہے

انجنا (۷۵) ان ایک ارب چالیس کروڑ ہندوستانیوں میں سے ایک ہیں جن کی ’امیدیں‘ وزیر اعظم نریندر مودی کے مطابق اس بجٹ نے پوری کر دی ہیں۔ لیکن نئی دہلی کے اقتدار کے گلیاروں سے ۱۱۰۰ کلومیٹر دور رہنے والی انجنا ایسا نہیں سمجھتیں۔

یہ سردیوں کی ایک خاموش دوپہر ہے۔ لوگ روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہیں۔ وہ شاید بجٹ کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ یا اپنے لیے اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔

انجنا کو بجٹ سے کوئی امید نہیں ہے۔ ’’سرکار کیا دے گا! کمائیں گے تو کھائیں گے، نہیں کمائیں گے تو بھوکھلے رہیں گے۔‘‘

گاؤں میں رہنے والے ۱۵۰ چمار خاندانوں کی ۹۰ فیصد آبادی بے زمین ہے۔ وہ عام طور سے دہاڑی مزدوری کرتے ہیں اور ہر سال کام کی تلاش میں مہاجرت کر جاتے ہیں۔ وہ ٹیکس کے دائرے میں بھی نہیں رہے ہیں۔

انجنا دیوی کو پانچ کلوگرام اناج ہر مہینے مفت ملتا ہے، لیکن وہ اپنے لیے آمدنی کا مسلسل ذریعہ چاہتی ہیں۔ ’’میرے شوہر بہت بوڑھے ہو گئے ہیں اور اب وہ کام نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمیں گزارہ کے لیے سرکار سے باقاعدہ روزگار کا کوئی ذریعہ چاہیے۔‘‘

ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز

Umesh Kumar Ray

Umesh Kumar Ray is a PARI Fellow (2022). A freelance journalist, he is based in Bihar and covers marginalised communities.

Other stories by Umesh Kumar Ray
Editor : P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique