سروجنی کو مُنڈو (دھوتی) استری کرنے میں دو منٹ لگتے ہیں، جب کہ شرٹ کو وہ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں آئرن کر دیتی ہیں۔ شرٹ پر اگر بہت زیادہ سلوٹیں ہوں، تو استری کرنے سے پہلے وہ ایک جراب کے اندر بھرے گیلے کپڑے کو شرٹ پر رگڑتی ہیں تاکہ وہ ہموار ہو جائے – کپڑے کو گیلا کرکے آئرن کے ذریعے اس کی سلوٹوں کو دور کرنے کا یہ ایک انوکھا طریقہ ہے۔
سروجنی (۸۰ سالہ)، کیرالہ کے فورٹ کوچی کے اس دھوبی خانہ میں ۱۵ سال کی عمر سے کام کر رہی ہیں۔ اس عوامی دھوبی خانہ میں اپنی متعینہ جگہ پر کپڑے کو استری کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’جب تک میری صحت ٹھیک ہے، میں [کپڑے کی دھلائی اور استری کا] یہ کام کرتی رہوں گی۔‘‘
ان کے ساتھ وہاں ۶۰ سال کے کماریسن بھی موجود ہیں، جن کا کہنا ہے، ’’یہاں صرف ایک ہی تکنیک کام کرتی ہے اور وہ ہے کڑی محنت۔‘‘ وہ روزانہ صبح پانچ بجے سائیکل چلا کر یہاں اپنی توٹّی (کپڑے دھونے کا حوض) میں آتے ہیں؛ ان کے گھر سے یہاں تک کا فاصلہ آدھا کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ جس دن فوری ڈیلیوری کرنی ہوتی ہے، اُس دن انہیں صبح ۴ بجے سے رات کے ۱۱ بجے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ’’آج میں تھوڑا آرام سے کام کر سکتا ہوں کیوں کہ ڈیلیوری کل ہونی ہے۔ کل شاید مجھے تیزی سے کام کرنا پڑے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔


بائیں: کوچی کا یہ دھوبی خانہ، ویلی گراؤنڈ (میدان) کے ایک سرے پر واقع ہے۔ دائیں: سلوٹوں کو درست کرتیں سروجنی؛ وہ ۱۵ سال کی عمر سے یہ کام کر رہی ہیں
ویلی گراؤنڈ کے ایک سرے پر واقع اس دھوبی خانہ کو گریٹر کوچین ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے بنوایا تھا، جو ایرنا کولم کے فورٹ کوچی گاؤں میں دو ایکڑ کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ اسے ونّن کمیونٹی کے لوگ چلاتے ہیں، جنہیں ریاست میں درج فہرست ذات کا درجہ حاصل ہے۔ گاؤں میں اس کمیونٹی کے سکریٹری، ایم پی منوہرن بتاتے ہیں، ’’یہاں ونّن کمیونٹی کے تقریباً ۱۵۰ خاندان ہیں، جن میں سے تقریباً ۳۰ فیصد لوگ ہی دھوبی خانہ میں کام کرتے ہیں۔‘‘
کمیونٹی کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کوئی اور کام کریں۔ دھوبی خانہ میں کام کرنے والے کے پی راجن کہتے ہیں، ’’مجھے کبھی نہیں لگا کہ اپنے بچوں کو بھی یہ کام سکھانا چاہیے۔ میں نے انہیں تعلیم دلوائی، انہوں نے پڑھائی کی، اب یہ ان کے اوپر ہے کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔‘‘
راجن اس سے پہلے کیبل بچھانے، مستری کا کام، گھاس کاٹنے اور اس قسم کی یومیہ مزدوری کے مختلف کام کر چکے ہیں۔ ’’لیکن میں نے اس کام [کپڑے دھونے اور استری کرنے] کو کبھی نہیں چھوڑا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’کبھی میں ۱۰۰۰ روپے کما لیتا ہوں تو کبھی ۵۰۰۔ کئی بار ہمیں خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ یہ سب ہمارے اس دن کے کام پر منحصر ہوتا ہے،‘‘ ۵۳ سالہ راجن کہتے ہیں۔
دھوبی خانہ میں کام کرنے والوں کو اپنے گاہک خود ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ وہ کپڑے دھونے، انہیں سفید یا اجلا کرنے، سیدھا کرنے اور استری کرنے جیسی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ایک کپڑے کی استری کرنے کے وہ ۱۵ روپے لیتے ہیں، جب کہ دھلائی اور استری دونوں کے ۳۰ روپے لیتے ہیں۔


بائیں: دسمبر سے فروری کے درمیان، دھوبی خانہ سیاحوں اور دیگر مہمانوں کے کپڑوں سے بھر جاتا ہے۔ جے پرکاش ایک ڈالر کا نوٹ دکھا رہے ہیں جو کسی سیاح نے انہیں تحفے میں دیا تھا
کماریسن بتاتے ہیں کہ دسمبر سے فروری کے درمیان یہاں کے تمام ہوٹل اور ہوم اسٹے سیاحوں اور دیگر مہمانوں سے بھر جاتے ہیں۔ ان مہینوں میں دھوبی خانہ میں زیادہ تر انھیں کے کپڑے دھوئے اور استری کیے جاتے ہیں۔ بقیہ دنوں میں یہاں کے اسپتالوں، مقامی ہوٹلوں اور گھروں سے کپڑے آتے ہیں۔
نیشنل سیمپل سروے کی ۶۸ویں دور کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہندوستانی گھروں میں واشنگ مشینوں اور لانڈرومیٹس (کپڑے دھونے والی خودکار مشینوں) کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔
لیکن راجن جیسے دھوبیوں کو اس مقابلہ آرائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ کہتے ہیں، ’’کلف لگانے جیسی کئی چیزیں ہیں جو مشین نہیں کر سکتی۔ سیاستداں لوگ جو کپڑے پہنتے ہیں، ان میں یہ کام ہمیں ہاتھ سے ہی کرنا پڑتا ہے۔‘‘
اے ایس جے پرکاش اس دھوبی خانہ میں گزشتہ ۲۳ سالوں سے کام کر رہے ہیں۔ کپڑے کو ایک تال میں پیٹتے ہوئے ۵۸ سالہ جے پرکاش کہتے ہیں، ’’یہ آپ کی کارپوریٹ والی نوکری جیسا نہیں ہے۔ یہاں پر ہم ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کام کب کرنا ہے۔‘‘

فورٹ کوچی کا ویلی گراؤنڈ، جہاں پر یہ دھوبی خانہ بنا ہوا ہے

یہاں کے دھوبی صبح پانچ بجے سے ہی اپنا کام شروع کر دیتے ہیں

کپڑے دھونے کے لیے یہاں ہر ایک کارکن کو ایک توٹّی (کپڑے دھونے کا حوض) دیا گیا ہے۔ دھوبیوں کی گھٹتی تعداد کے سبب کچھ حوض بیکار پڑے ہیں

کماریسن، اپنی توٹّی میں کپڑے دھونے کا کام کر رہے ہیں

کملمّا، بانس کے مضبوط کھمبوں کے درمیان بندھی رسیوں پر کپڑے پھیلا رہی ہیں

راجن، کپڑے کو رسیوں کے درمیان احتیاط سے پھنسا رہے ہیں تاکہ وہ گریں نہیں

نئے زمانے کے لانڈرومیٹس اور مشینوں سے مقابلہ آرائی کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے، راجن کہتے ہیں، ’کلف لگانے جیسی کئی چیزیں ہیں جو مشین نہیں کر سکتی۔ سیاستداں لوگ جو کپڑے پہنتے ہیں، ان میں یہ کام ہمیں ہاتھ سے ہی کرنا پڑتا ہے‘

دھوبی خانہ کے اندر استری کرنے والے حصے میں سوکھتے ہوئے سفید کپڑے

راجن، سفید بیڈ شیٹ (چادروں) کو دھلائی کے بعد تہہ کر رہے ہیں

یہاں پر کپڑوں کو سکھانے کے لیے کچھ مشینیں بھی استعمال کی جاتی ہیں

کام کے دوران گرم چائے کی چسکیاں لیتا ہوا ایک کارکن

استری والے کمرے میں دیوی دیوتاؤں کی تصویریں

لوہے کے اس آئرن کا استعمال دھوبی روایتی طور پر کرتے چلے آئے ہیں۔ آئرن کو گرم کرنے کے لیے، استری کرنے سے پہلے اس کے اندر کوئلہ کی آگ جلائی جاتی ہے

سروجنی (۸۰ سالہ) گرم کوئلہ سے بھرے روایتی آئرن میں پھونک رہی ہیں

سروجنی بھیگے ہوئے چھوٹے کپڑے سے بھری ایک جراب سے کپڑے کو گیلا کرکے استری سے اس کی سلوٹوں کو دور کرتی ہیں

دھوبی خانہ کے شروعاتی الیکٹرک آئرن میں سے ایک کا استعمال اب بھی ہوتا ہے

سروجنی، تازہ دھلے ہوئے کپڑوں کو پوری مہارت سے تہہ کر رہی ہیں

صفائی سے بندھے ہوئے کپڑوں کے بنڈل جو ڈیلیوری کے لیے تیار ہیں
مترجم: محمد قمر تبریز