’’یہ بارہ لاکھ والا نا؟ اسی کی بات کر رہے ہیں نا؟‘‘ تیس سال کے شاہد حسین اپنے فون پر مجھے ایک واٹس ایپ میسیج دکھاتے ہیں۔ یہ میسیج انکم ٹیکس میں چھوٹ کی حد ۱۲ لاکھ روپے تک بڑھانے سے متعلق ہے۔ شاہد، بنگلورو میں میٹرو لائن کی تعمیر کر رہی ناگارجن کنسٹرکشن کمپنی میں کرین چلانے کا کام کرتے ہیں۔

’’ٹیکس میں بارہ لاکھ کی چھوٹ کے بارے میں تو ہم بہت کچھ سن رہے ہیں،‘‘ برجیش یادو طنزیہ انداز میں کہتے ہیں۔ ’’یہاں کسی کی آمدنی سالانہ ساڑھے تین لاکھ [روپے] سے زیادہ نہیں ہے۔‘‘ برجیش، جو کہ اپنی عُمر کی تیسری دہائی میں ہیں، اتر پردیش کے دیوریا ضلع کے ڈومریا گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک غیر ہنرمند مہاجر مزدور ہیں۔

’’جب تک یہ کام چل رہا ہے، ہم مہینہ کے تقریباً ۳۰ ہزار روپے کما لیں گے،‘‘ بہار کے کیمور (بھبھوا) ضلع کے بیور گاؤں سے تعلق رکھنے والے شاہد حسین کہتے ہیں۔ وہ کام کی تلاش میں کئی ریاستوں کا دورہ کر چکے ہیں۔ ’’اس کام کے بعد یا تو کمپنی ہمیں کسی اور جگہ بھیج دے گی، یا ہم خود کوئی ایسا کام تلاش کر لیں گے جہاں ۱۰-۱۵ روپے زیادہ مل سکیں۔‘‘

PHOTO • Pratishtha Pandya
PHOTO • Pratishtha Pandya

بنگلورو میں این ایچ ۴۴ کے ساتھ جاری میٹرو لائن کے تعمیراتی کام میں شاہد حسین (نارنگی قمیص میں)، جو ایک کرین آپریٹر ہیں، اور نیم ہنرمند مزدور برجیش یادو (نیلی قمیص میں) کئی دیگر مہاجر مزدوروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں، جن میں کچھ مقامی ہیں اور کچھ دوسری ریاستوں سے آئے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کام کرنے والوں میں کسی کی بھی آمدنی سالانہ ساڑھے تین لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہے

PHOTO • Pratishtha Pandya
PHOTO • Pratishtha Pandya

اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے نفیس، بنگلورو میں ایک مہاجر پھیری والے ہیں۔ انہیں روزگار کمانے کے لیے اپنے گاؤں سے ۱۷۰۰ کلومیٹر دور آنا پڑا ہے۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کی جدوجہد میں وہ اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں بجٹ جیسے  موضوعات پر بحث کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا

سڑک کے اس پار ٹریفک سگنل پر اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک اور مہاجر گاڑیوں کے ونڈو شیلڈ، کار کی نیک سپورٹ، مائکرو فائبر کے ڈسٹر اور دیگر سامان فروخت کر رہے ہیں۔ وہ روزانہ ۹ گھنٹے سڑک پر اِدھر اُدھر گھومتے ہیں، سگنل پر رکی گاڑیوں کی کھڑکیاں کھٹکھٹاتے ہیں۔ ’’ارے کا بجٹ بولیں؟ کا نیوز؟‘‘ نفیس میرے سوالوں سے واضح طور پر جھنجھلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

وہ اور ان کے ایک بھائی جو اپنے سات افراد پر مشتمل خانوادے کے فقط دو روزگار یافتہ ہیں، اتر پردیش کے ضلع پریاگ راج کے شہر بھرت گنج سے تعلق رکھتے ہیں، جو یہاں سے ۱۷۰۰ کلومیٹر دور ہے۔  ’’ہماری کمائی ہمارے کام پر منحصر ہے۔ آج ہوا تو ہوا، نہیں ہوا تو نہیں ہوا۔ جب کام کرتا ہوں تو تقریباً ۳۰۰ روپے بنا لیتا ہوں۔ اور ہفتہ کے آخر میں یہ رقم ۶۰۰ روپے بھی ہو سکتی ہے۔‘‘

’’گاؤں میں ہمارے پاس کوئی زمین نہیں ہے ۔ اگر ہم کسی دوسرے کی زمین پر کاشت کریں تو یہ ’۵۰:۵۰‘ ہوتا ہے۔ یعنی پانی، بیج اور دیگر چیزوں پر انہیں تمام اخراجات کا نصف حصہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ’’ساری محنت ہماری ہوتی ہے، پھر بھی آدھی فصل دے دیتے ہیں۔ گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے، بجٹ پر کیا ہی بات کریں؟’’ نفیس بے چین ہیں۔ سگنل کی بتی لال ہو جاتی ہے، اور وہ فوراً ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھے ممکنہ خریداروں پر نظریں جما لیتے ہیں، جو بتی کے ہرے ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

ترجمہ نگار: ثقلین احمد جعفری

Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Saqlain Ahmed Jafri

Saqlain Ahmed Jafri is a student who is deeply passionate about the Urdu language and poetry. An occasional poet himself, he strives to preserve and promote Urdu through his creativity.

Other stories by Saqlain Ahmed Jafri