ببیتا مترا اپنی فیملی کا بجٹ بنانے میں درپیش مشکلوں کی بات کرتی ہیں، ’’میرے پاس ہمیشہ کم پیسے ہوتے ہیں۔ میں کھانے پینے کے لیے پیسے الگ رکھتی ہوں، لیکن اکثر وہ پیسے دواؤں پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ بیٹوں کے ٹیوشن کے پیسوں سے راشن خرید کر لانا پڑتا ہے۔ اور ہر مہینہ مجھے مالکوں سے پیسے اُدھار لینے پڑتے ہیں…‘‘
تقریباً ۳۷ سالہ یہ گھریلو ملازمہ کولکاتا کے کالکاپور علاقہ میں دو گھروں میں کام کر کے سالانہ تقریباً ایک لاکھ روپے کماتی ہیں۔ وہ محض ۱۰ سال کی عمر میں مغربی بنگال کے ندیا ضلع کے آسن نگر سے کولکاتا آ گئی تھیں۔ ’’میرے والدین تین بچوں کی پرورش نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے، مجھے ایک فیملی کے گھر کام کرنے کے لیے کولکاتا بھیج دیا گیا، جو بنیادی طور پر ہمارے گاؤں سے ہی تھی۔‘‘
اس کے بعد سے، ببیتا کئی گھروں میں گھریلو ملازمہ رہ چکی ہیں۔ وہ گزشتہ ۲۷ برسوں سے کولکاتا میں ہیں اور اس دوران پیش کیے گئے سبھی بجٹ میں ان کے یا ہندوستان کے (سرکاری طور پر) ۴۲ لاکھ گھریلو ملازمین کے لیے کچھ بھی خاص انتظامات نہیں کیے گئے۔ آزاد تخمینوں کے مطابق، ان کی تعداد ۵ کروڑ سے زیادہ ہے۔
سال ۲۰۱۷ میں ببیتا نے جنوبی ۲۴ پرگنہ کی اُچھے پوتا پنچایت کے بھگوان پور علاقہ میں رہنے والے عمل مترا سے شادی کر لی، جن کی عمر ۴۵ سے ۵۰ سال کے درمیان تھی۔ شادی کے بعد ببیتا کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئیں، کیوں کہ ان کے شوہر، جو ایک فیکٹری میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور تھے، گھر کے اخراجات میں بہت کم ہاتھ بٹاتے تھے۔ عام طور پر ببیتا کی کمائی سے ہی ان کی چھ رکنی فیملی کا خرچ چلتا ہے، جس میں ببیتا اور عمل کے علاوہ ۵ اور ۶ سال کے ان کے دو بیٹے، ببیتا کی ساس، اور تقریباً ۲۰-۲۵ سال کی ایک سوتیلی بیٹی شامل ہے۔
کلاس ۴ میں اسکول چھوڑنے والی ببیتا کو ہندوستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے نافذ کیے جا رہے ’صنفی بجٹ‘ کے بارے میں بہت کم جانکاری ہے۔ نہ ہی وہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی اس سوچ سے واقف ہیں، جس کے مطابق ۲۰۲۵-۲۶ کا مرکزی بجٹ خواتین کی قیادت میں مالی اضافہ پر زور دیتا ہے۔ لیکن ببیتا روزمرہ کی زندگی سے متعلق حقائق سے واقف ہیں، اس لیے ان کے جواب میں یہ سمجھداری صاف طور پر دکھائی دی، ’’اس بجٹ کا کیا فائدہ جو خواتین کے لیے اتنا کچھ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن جب ان پر کوئی مشکل آتی ہے، تو ان کے پاس کوئی سہارا کیوں نہیں ہوتا؟‘‘ کورونا وبائی مرض کے دوران انہوں نے جن مشکلوں کا سامنا کیا اس سے جڑی یادیں ان کے ذہن میں اب بھی تازہ ہیں۔


ببیتا مترا کی آنکھیں بھر آئیں، جب وہ کورونا وبائی مرض کے دوران آئی مشکلوں کے بارے میں بات کرنے لگیں۔ حمل کے آخری تین مہینوں میں سرکار سے زیادہ مدد نہ ملنے اور انٹیگریٹیڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز (آئی سی ڈی ایس) کے تحت ملنے والی غذا اور پروٹین کی خوراک کی کمی کے سبب ان کے جسم میں وٹامن کی کمی ہو گئی، جس کی علامتیں اب بھی ان کے جسم پر دکھائی دیتی ہیں


دو چھوٹے اسکولی بچوں کی ماں ببیتا بطور گھریلو ملازمہ کولکاتا کے دو گھروں میں کام کر کے بڑی مشکل سے اپنا گھر چلاتی ہیں۔ انہیں نہیں لگتا کہ جس بجٹ کو خواتین پر مرکوز بجٹ کہہ کر اس کی اتنی تشہیر کی گئی ہے اس کا کوئی بھی فائدہ ہے، کیوں کہ مشکل حالات میں ان کے جیسی خواتین کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے
’’اوٹا امار جیبنیر سبچییے کھاراپ سمے۔ پیٹے تکھن دویتیو سنتان، پرتھم جون تکھنو آمار دودھ کھائے…شریرے کونو جور چھیلو نا۔ [وہ میری زندگی کا سب سے برا وقت تھا۔ میرا دوسرا بچہ میرے پیٹ میں تھا اور میں اپنے پہلے بچے کو اپنا دودھ پلاتی تھی۔ میرے جسم میں کوئی طاقت نہیں تھی۔]‘‘ ابھی بھی اس وقت کی بات کرتے ہوئے ان کا گلا بھر آتا ہے، ’’مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے بچ گئی۔‘‘
وہ بتاتی ہیں، ’’حمل کے آخری مہینہ میں اتنا بڑا پیٹ لے کر مجھے میلوں پیدل چلنا پڑا اور خیراتی تنظیموں اور کچھ اچھے لوگوں کے ذریعہ تقسیم کیے جا رہے راشن کو پانے کے لیے مجھے لمبی قطاروں میں کھڑے رہ کر انتظار کرنا پڑا۔‘‘
’’سرکار نے [پی ڈی ایس کے تحت] صرف ۵ کلو مفت چاول دے کر اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ مجھے حاملہ خواتین کے لیے متعینہ دوائیں اور خوراک [مقوی غذائیں اور پروٹین سپلیمنٹ] بھی نہیں ملی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ وبائی مرض کے دوران سوء تغذیہ کے سبب اینیمیا (خون کی کمی) اور کیلشیم کی کمی کی علامتیں اب بھی ان کے ہاتھوں اور پیروں پر دکھائی دیتی ہیں۔
’’ایک غریب عورت، جسے اپنے والدین یا شوہر کے خاندان سے کوئی مدد نہیں ملتی، اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سرکار کو اٹھانی چاہیے۔‘‘ ببیتا ۱۲ لاکھ روپے کی سالانہ آمدنی پر ٹیکس کی چھوٹ پر طنز کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہمارا کیا؟ ہم جو کچھ بھی خریدتے ہیں اس پر ٹیکس نہیں دیتے؟ سرکار بڑی بڑی باتیں کرتی ہے، لیکن سارا پیسہ ہمارے ذریعہ دیے جانے والے خزانہ [ٹیکس] سے آتا ہے۔‘‘ وہ اپنے آجر کے گھر کی بالکنی میں سوکھ رہے کپڑوں کو اتارنے کے لیے رکتی ہیں، اور پھر یہ کہہ کر بات چیت ختم کرتی ہیں، ’’سرکار ہمارا ہی پیسہ ہمیں دیتی ہے اور اتنا شور مچاتی ہے!‘‘
ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز