ریاستی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے بس اسٹینڈ پر کافی چہل پہل ہے۔ بسوں کے تیز ہارن اور ان کی آمدورفت کے بارے میں ہو رہے اعلان، کھانے پینے کا سامان اور بوتل بند پانی بیچتے پھیری والوں کے شور کے درمیان انل ٹھومبرے بتاتے ہیں، ’’مجھے ان او ٹی پی نمبروں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ سہا اکڑے آنی پئیسا گائب [۶ نمبر کا میسیج اور پیسے غائب]۔‘‘ ان سے کسی نے او ٹی پی (ون ٹائم پاس ورڈ) نمبر پوچھا تھا، جس کے بعد انہوں نے مجھ سے مدد مانگی ہے۔
انہوں نے اس سال کے مرکزی بجٹ (جسے انہوں نے (ارتھ سنکلپ‘ کہا) کے بارے میں سنا ہے۔ اڑکِتّا (سروتے) سے سپاری کاٹتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’۳۱ جنوری کو ریڈیو پر اس بارے میں کچھ خبریں آئیں۔ سرکار اس میں سبھی محکموں کے لیے کچھ التزامات کا اعلان کرتی ہے۔ میں اس بارے میں جانتا ہوں۔ سب نہیں، تو کم از کم روپیات دہا پئیسے [ایک روپے پر دس پیسے]!‘‘
اپنی لال اور سفید رنگ کی چھڑی پکڑے انہوں نے مجھے کینٹین کا راستہ دکھایا، تاکہ ہم کسی خاموش جگہ پر بیٹھ کر بات کر سکیں۔ ٹھومبرے نابینا ہیں۔ پلیٹ فارم سے لے کر لوگوں کی بھیڑ، کینٹین کاؤنٹر اور سیڑھیوں تک، ان سبھی کا انہیں بالکل صحیح اندازہ ہے۔ ’’میری عمر محض ایک مہینہ ہی تھی، جب مجھے چیچک ہوا اور میں نے اپنی آنکھوں کی روشنی پوری طرح کھو دی۔ ایسا مجھے بتایا گیا تھا۔‘‘

بارول گاؤں کے رہنے والے انل ٹھومبرے ایک موسیقار ہیں، جن کا ماننا ہے کہ بجٹ میں جسمانی معذوری کے شکار لوگوں پر مزید توجہ دی جانی چاہیے
انل ٹھومبرے، بارول گاؤں کے رہائشی ہیں، جو تلجاپور شہر سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور ایک گاؤں ہے جس کی آبادی تقریباً ۲۵۰۰ ہے۔ وہ بھکتی گیت پیش کرنے والے ایک بجھن منڈل کے لیے طبلہ، پکھاوج بجاتے ہیں۔ منتظمین سے ملنے والی اجرت کے علاوہ انہیں معذوری کے پنشن کے طور پر ہر مہینے ۱۰۰۰ روپے ملتے ہیں، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے، ’’یہ کبھی وقت پر نہیں آتا۔‘‘ اتنا ہی نہیں، انہیں اسے بینک سے نکالنے کے لیے تلجاپور جانا پڑتا ہے۔ حال ہی میں انہیں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مکان ملا ہے اور جلد ہی اس پر کام شروع ہو جائے گا۔ انل (۵۵) کا کہنا ہے، ’’حالانکہ، اس کے لیے بھی مجھے بینک کھاتہ کے ذریعہ پہلی قسط ملنے کا انتظار کرنا ہوگا اور اس کے لیے مجھے کے وائی سی کرانا ہوگا۔‘‘
آج، وہ تلجاپور میں ایک لانڈری سے اپنے دھلے ہوئے کپڑے لینے آئے ہیں۔ یہ دکان بارول کے ہی رہنے والے ان کے ایک دوست کی ہے۔ وہ کھل کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں، ’’میں غیر شادی شدہ ہوں اور خود ہی اپنے سارے کام کرتا ہوں۔ میں کھانا بناتا ہوں، اور نل سے پانی بھرتا ہوں۔ آپ بس سمجھو کہ میں کپڑے دھونے سے تنگ آ گیا ہوں!‘‘
بقول ٹھومبرے، ’’مائی باپ سرکار کو سب کی فکر کرنی چاہیے۔ لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے، تو میں کہوں گا کہ بجٹ میں مجھ جیسے لوگوں، جو جسمانی معذوری کے شکار ہیں، پر تھوڑا زیادہ دھیان دینا چاہیے۔‘‘
ٹھومبرے کو نہیں معلوم کہ ۲۰۲۵ کی بجٹ تقریر میں دویانگ جن یا جسمانی طور سے معذور لوگوں کا ایک بار بھی ذکر نہیں کیا گیا۔
ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز